جہانزیب خان کاکڑ
ایسا دور چل رہا ہے ہمارے ملک میں جس پہ اگر توجہ نہ دی گئی تو پتا نہیں حالات کس کروٹ بیٹھیں گے۔ بڑا افسوس ہوتا ہے جب معاشرے کا کوئی پڑھا لکھا معزز شہری اپنی ڈگریاں اُٹھائے، سی وی اُٹھائے ادھر اُدھر لئے پھرتا ہے یا بے تحاشہ آن لائن اپلائی کرتا ہے لیکن نوکری پھر بھی نہیں مل پاتی۔ یہ کہانی صرف ایک فرد کی نہیں ہے۔ آپ کے ارد گرد بے شُمار ایسے نوجوان ہوں گے جو نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور در در دھکے کھا رہے ہیں۔
چلیں وہ تو نوجوان ہیں جو نئی نئی ڈگریاں لے کے فارغ ہوئے ہیں۔ لیکن اُن کا کیا جن لوگوں نے اپنی عُمر کا ایک حصہ مختلف کمپنیوں میں نوکری کی اور پھر نذر ہو گئے کمپنیوں کی پالیسی کے یعنی یا تو حالات کی وجہ سے کمپنی سے بڑے ہاتھیوں کو نکال دیا گیا یا فورس کیا گیا کہ استعفیٰ دے دیں۔ اب ایک ایسا شخص جو بارہ تیرہ سال سے نوکری کر رہا ہے، اُسے کسی بھی بہانے سے نکال دیا جائے تو ایک دم اُس پہ کیا بیتے گی؟ معاشرے کے حالات کا آپ کو پتا ہے کہ ایک ماہ کی تنخواہ لیٹ ہو جائے تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور یہاں تو نوکری سے ہی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
ایک تو وہ بیچارے نوکری سے نکال دیے گئے اور پھر اُنہیں کوئی نوکری پہ رکھتا بھی نہیں۔ کیوں؟ سارے فساد کی جڑ ہی یہ ہے کہ کمپنیاں زیادہ تنخواہ مانگنے والوں یا زیادہ تجربہ کار لوگوں کو نوکری دینے کے حق میں ہی نہیں ہیں۔ بقول اُن کے اگر کسی کو تین لاکھ دے کر نوکری پہ رکھنا ہے تو اِس سے بہتر ہے کہ تیس ہزار پر پانچ چھ فری لانسر رکھ لو، باہر سے کام کروا لو فری لانسر سے یا چالیس پچاس ہزار پہ کم تجربے والے افراد رکھو۔
اب انہیں کیا خبر کہ کم تجربہ کار ملازم جو کام چار گھنٹے میں کرتا ہے، وہ کام ایک چودہ پندرہ سال کے تجربہ کار ملازم کے لئے دو گھنٹے کا بھی نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس معاملے میں کمپنیاں اپنی پالیسی بدلیں اور موقع دیں نئے لوگوں کو لیکن تجربہ کار لوگ اُن کی کمپنی کو جو فائدہ دے سکتے ہیں وہ قابلِ غور ہے۔ اِن عوامل میں سے ایک ہے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کی نالائقی کیونکہ وہ مہارت رکھنے والے افراد کو نظر انداز کر کے اُنہیں ترجیح دیتے ہیں جنہوں نے اپنی مطلوبہ تنخواہ بہت کم لکھی ہوتی ہے۔
ایک اور مسئلہ اوور کوالیفیکیشن کا ہے ؛ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی محکمے میں اپلائی کرتا ہے اور اپنی ساری ڈگریاں سارا تجربہ سی وی میں بتا دیتا ہے تو اُسے اوور کوالیفائیڈ کہہ کے نوکری پر نہیں رکھا جاتا کیونکہ جس سیٹ کے لئے اُس نے اپلائی کیا تھا اُس کے لئے بی اے مطلوبہ تعلیم تھی جب کہ وہ بیچارہ بہت زیادہ پڑھا لکھا تھا اِس لئے اُسے نوکری نہیں دی گئی۔ یعنی آج معاشرے میں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں ہے، صرف سفارش پہ کام چل رہا ہے یا پیسہ دو نوکری لو ورنہ کھاؤ دھکے۔
ایک مڈل کلاس شخص جس کا تجربہ ہے، تعلیم ہے، اچھی شخصیت ہے، وہ اکثر اوقات اِس وجہ سے بھی نوکری نہیں پا سکتا کہ عمر زیادہ ہو گئی ہے۔ یعنی ہم ابھی تک اُن ہی پُرانے اصولوں پر چل رہے ہیں اور باہر کے ممالک میں ایسے لوگوں کو باقاعدہ طور پر ترجیحی بنیا دوں پر رکھا جاتا ہے، وہ عمر کی حد نہیں دیکھتے، وہ اصل قیمت ادا کرتے ہیں تعلیم کی، تجربے کی اور دن رات کام کرنے کی۔ پاکستان میں بے روز گار افراد کی شرح 5.7 فیصد سے بڑھ کر 6.3 فیصد ہو گئی مطلب 4.51 ملین افراد اِس وقت بے روزگاری کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو ایسے افراد نظر آئیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ بے روزگار کیوں ہیں۔ یہ سب وجوہات ہیں بے روزگاری کی بلکہ اور بھی وجوہات ہیں جن کا ذکر فالو اپ کالم میں کیا جائے گا اور ایک اور مسئلہ اُجاگر کروں گا جس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے نہ ہی کوئی حل نکالا جائے گا۔
دُعا کریں کہ جو لوگ بے روز گار ہیں اُنہیں حلال روزگار مہیا ہو اور وہ اپنے گھر کا چولہا چالو کر سکیں ورنہ حالات ایسے ہیں کہ بس اللہ کی ذات ہی رحیم و کریم ہے، وہ ہی کرم کرے اِس بگڑے ہوئے نظام پر اور عقل ڈالے اوپر بیٹھے ہوئے سیٹھوں کے دماغوں میں۔ پڑھے لکھے افراد آج کل ریڑھی پر سموسے، پکوڑے، دال چاول وغیرہ بیچنے پر مجبور ہیں۔ افسوس صد افسوس!
اِس کا فالو اپ کالم بھی ضرور پڑھیے گا کیونکہ اُس میں وہ سوچ اُجاگر ہو گی جو آج کل ہر ایک کی ہے اور کچھ اہم وجوہات اور بھی بیان کی جائیں گی۔ دُعاؤں کا طالب!